ہپ ہپ ہرا
ہپ ہپ ہرا
اس کا اصل نام رفیق تھا اصل نام کوٸ
بھی نہیں پکارتا ۔ نام کی ٹانگیں بازو توڑ کے لیا جاتا ہے ۔ اسے بھی فیقا بلایا جانے
لگا ۔ فیقا جس غیر ملکی کمپنی میں کام کرتا تھا وہاں کی سپر واٸز
مسز جیسیکا اسے پھیکا کہہ کر بلاتی تھی کیوں کہ وہ فیقا کا تلفظ صیحح طرح سے ادا نہیں
کر سکتی تھی ۔ یوں وہ رفیق سے فیقا اور پھر پھیکا مشہور ہوگیا
ایک دن پھیکا سمندر کنارے بیٹھا تھا کہ ایک بڑی سی بوتل
سمندر کی لہروں پہ تیرتی ہوٸ
اس کے سامنے سے گزری ۔ پھیکا اٹھا اور بوتل اٹھا لایا ۔ بوتل پہ ایک بڑا سا لکڑی
کا کارک لگا ہوا تھا ۔ پھیکے نے زور لگا کر کارک کھینچا ۔ پھر اس نے بوتل میں
جھانکا ۔ بوتل کی تہہ میں ہلکا سا دھواں لہرا رہا تھا ۔ بوتل کے جن کی کہانیاں
پھیکے نے بہت بار سنی تھی ۔ اس نے بوتل کو الٹا کر کے جھٹکا ۔ بوتل کے اندر سے
یکلخت ایک چیختی باریک سی آواز آٸ
"
او کمبخت انسان! آرام سے نہیں کہہ سکتے باہر آنے کا ۔۔ "
پھیکے نے گھبرا کر بوتل پھینک دی ۔ پھر وہی چیختی آواز سنائی
دی
"
او تیرا بیڑہ غرق ۔ میری جان لینی ہے کیا ۔ آرام سے نہیں رکھ
سکتے بوتل زمین پر ۔۔ "
پھیکا حیران و پریشان کھڑا تھا ۔ پھر اس نے جھک کر بوتل کے
قریب جا کے کہا
"
جن بھاٸ!
باہر تشریف لاٶ ۔ مجھے
تمہارے درشن کرنے ہیں ۔۔ "
جن کی آواز آٸ
"
میں بڑے عرصے سے بوتل میں ہوں ۔ اب تو سست ہوگیا ہوں جی نہیں
کرتا باہر نکلنے کو ۔ اور میں اتنی مشکل زبان نہیں سمجھ سکتا ۔۔ "
پھیکے نے کہا
"
میرا مطبل ہے باہر آٶ
مجھے بات کرنی ہے ۔۔ "
جن نے کہا
"
ہم ایسے بھی بات کررہے ہیں ۔ تو میں کیوں خواہ مخواہ باہر آٶں
۔ کیا بات کرنی ہے تمہیں ۔۔ ؟ "
پھیکے نے ہچکچاتے ہوۓ کہا
"
میں نے سنا ہے تم تین خواہشیں پوری کرتے ہو ۔ میری بھی
خواہشیں پوری کردو ۔۔ "
جن کی آواز لہراٸ
"
تین نہیں ۔ میں اب صرف ایک پوری کر سکتا ہوں کیوں کہ بہت
بوڑھا ہوچکا ہوں ۔۔ "
پھیکے نے خوش ہوکر کہا
"
اچھا مجھے ڈھیر ساری دولت چاہیے ۔۔
"
جن نے پوچھا
"
تمہارے بینک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں ۔۔ ؟ "
پھیکے نے چونک کر کہا
''
کچھ بھی نہیں ۔ میرا اکاؤنٹ ہی نہیں ہے ۔ کیوں ۔۔ ؟ "
جن نے غصہ ہوکر کہا
"
تمہارا دماغ خراب ہے کیا ۔ اکاؤنٹ نہیں ہے تو میں کہاں سے لے
کر آٶں دولت
۔۔ ؟ "
پھیکے نے بڑا پھیکا پھیکا سا مشورہ دیا
"
کسی دولت مند کی چرا لاٶ
۔ تم تو جن ہو یہ کر سکتے ہو ۔۔ "
جن نے گہری سنجيدگی سے پوچھا
"
مرزا تمیزالدین قازقستانی کو جانتے ہو ۔۔ ؟ "
پھیکے نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا
"
میں لاعلم ہوں ۔ نام سے تو کچھ بڑی ہستی لگتے ۔ کوٸ
پیر صاحب ہیں ۔۔ ؟ "
جن نے ناگواری سے کہا
"
ایک نمبر کا گھامڑ انسان ہے ۔ پچھلی بار میں اسی کے ہاتھ لگا
تھا ۔ اس نے بھی یہی کہا کہ کسی امیر بندے کی دولت چرا لاٶ
۔ میں چرا لایا بعد میں اس امیر بندے نے مجھے جیل میں ڈلوادیا ۔ تم نے پاکستان کا نام
سنا ہے ۔ وہاں کی پولیس بڑی سخت ہے قسمے ۔ وہ وہ باتیں بھی اعتراف کروا لیتی ہے جن
کے بارے سن بھی پہلی بار رہے ہوں ۔۔ "
پھیکے نے ایک ذرا مایوسی سے کہا
"
اس کا مطبل تم دولت نہیں دے سکتے ۔ اچھا پھر مجھے خوبصورت
بنادو ۔۔ "
جن نے کہا
"
تم نے میری صورت دیکھی ہے ۔ نہیں دیکھی ہوگی ۔ ورنہ راتوں کو
چیخیں ںکل جاتیں ۔ پاکستان میں میری بھی ایک بار میری بھی چیخیں نکل گٸیں
تھیں جب ایک خاتون منہ دھو کر سامنے آٸیں
تھیں ۔ بازار سے ہزار اقسام کی کریمز دستیاب ہیں ان سے مدد لو ۔۔ "
پھیکے نے کہا
"
پھر تم کر کیا سکتے ہو ۔ کیا تم مسز جیسیکا کو گونگا بنا
سکتے ہو ۔ بڑی بولتی ہیں سانس خشک کردیتی ہیں ۔۔
"
جن نے کہا
"
میرا خیال ہے میں یہ کر سکتا ہوں ۔۔
"
پھیکا خوشی سے اچھل پڑا ۔ اس نے جلدی سے کہا
"
اور وہ اکرم جہاز کو بھی گونگا کردو ۔ کمبخت کی آواز کانوں
میں چھبتی ہے ۔ اور دھیمے سیٹھ کو بھی کردو ۔ آٸندہ
ادھار نہیں مانگے گا ۔۔ "
جن نے کہا
"
تم جاٶ
اور تماشا دیکھو ۔۔ "
پھیکے نے بوتل پہ کارک لگایا اور اسے گھما کر واپس سمندر میں
پھینک دیا ۔ پھر وہ دوڑتا ہوا مسز جیسیکا کے دفتر پہنچا ۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے
کہا
"
کیسی ہو مسز جیسیکا ۔ سنا ہے تم بول نہیں سکتیں ۔۔ "
مسز جیسیکا ایک فاٸل
پڑھ رہی تھی ۔ اس نے ناگواری سے سر اٹھایا اور کچھ کہا لیکن آواز نہیں آٸ
۔ پھیکے نے خوشی سے چیختے ہوۓ کہا
"
ہپ ہپ ہرا ۔ بوتل کا جن زندہ باد ۔۔
"
وہ پلٹا اور اکرم جہاز کے پاس گیا ۔ اکرم اپنے ایک ساتھی کے
ساتھ کھانا کھارہا تھا ۔ پھیکے نے پوچھا
"
جہاز! کیا حال ہے ۔۔ ؟
"
جہازی نے بھی کچھ کہا لیکن آواز نہیں ابھری ۔ پھیکے نے قہقہہ
لگایا ۔ جہاز اور اس کے ساتھی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ساتھی نے بھی
کچھ کہا لیکن یا حیرت!
اس کی بھی آواز نہیں تھی ۔ اس بار پھیکے نے حیرت سے انہیں
دیکھا کیوں کہ اس نے اس ساتھی کو گونگا بنانے کو نہیں کہا تھا ۔ اس نے اکرم جہاز
کے ساتھی سے کہا
"
تم کیوں نہیں بول سکتے ۔۔ ؟
"
ساتھی نے ایک کاغذ پہ کچھ لکھا اور اسے سامنے کیا ۔ لکھا تھا
"
کیا بکواس کررہے ہو ۔ ہم دونوں ہی بول رہے ہیں ۔ تمہیں سنائی
نہیں دے رہا ۔ لگتا ہے بہرے ہوگۓ ہو ۔۔ "
No comments:
Post a Comment