Bright Future: Long Urdu Stories
Showing posts with label Long Urdu Stories. Show all posts
Showing posts with label Long Urdu Stories. Show all posts

Friday, 5 March 2021

stori

March 05, 2021 0
stori

 


پسند اپنی اپنی، نصیب اپنا اپنا

 

میں کل فرنیچر والی دکان پر گیا کچھ صوفہ اور بیڈ سیٹ پسند آئے تو سوچا تصویر لے لیتا ھُوں گھر والوں کو دِکھانے کے واسطے تصویر لینے لگا تو دکاندار غصہ ھو گیا اور منع کر دیا، وہاں سے نکلا اور جس بھی فرنیچر والے کے پاس گیا اُس نے ایسا ھی کِیا میرے ساتھ ایسا ھی پہلے ایک دفعہ کپڑے کے بوتیک پر بھی ھُوا تھا کہ جس بھی بوتیک پر گیا اُنہوں نے کپڑوں کی تصاویر لینے سے منع کر دیا میں نے فرنیچر والے سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا لوگ ڈیزائن چوری کر لیتے ہیں...کہنے لگا میں پہلے سنیار کا کام بھی کرتا رھا ھُوں اور جب کبھی ہم اپنے اُستاد سے مِلنے جاتے تھے تو وہ اپنا کام بند کر کے چُھپا لیتے تھے تا کہ ہم دیکھ کے اُس کا ڈیزائن چوری نہ کر لیں یہی دنیا کا دستور ھے جناب مجھے اِس پر ایک واقعہ یاد آ گیا اور میں نے فرنیچر والے کو سُنایا.

ہمارے شہر میں خوشی برفی والا بہت مشہور ھے بہت دُور دُور سے لوگ اُس کی برفی لینے آتے ہیں کیونکہ اُس کی برفی میں ذائقہ ھی ایسا ھے کہ میٹھے سے نفرت کرنے والا بھی بہت شوق سے اُس کی برفی کھاتا ھے ایک دفعہ لاہور میں کسی شادی پر امریکہ سے کچھ لوگ آئے ھُوئے تھے وہ تھے تو پاکستانی لاہوری لیکن بعد میں امریکہ شفٹ ھو گئے تھے تو وہاں شادی پر کوئی بندہ خوشی کی برفی لے گیا. امریکی مہمانوں نے جب برفی کھائی تو حیران رہ گئے، کہتے ایسا ذائقہ ہم نے آج تک نہیں چکھا کسی مٹھائی کا.. وہ خوشی کی برفی کے ایسے دیوانے ھُوئے کہ مزید برفی لینے اس کے شہر پہنچ گئے لیکن معلوم پڑا کہ برفی ختم ھو گئی کیونکہ فجر کی نماز کے بعد سے صبح آٹھ نو بجے تک اُس کی جتنی بھی سات آٹھ من برفی ھوتی تھی ساری بِک جاتی تھی اور شام بھی عصر سے عشاء تک یہی حال ھوتا تھا...وہ امریکی اِتنی زیادہ آمدن دیکھ کر حیران ھو گئے اور خوشی سے کہنے لگے ہمیں اپنی برفی کی ریسیپی دے دو ہم بھی واپس امریکہ جا کے مٹھائی کا کاروبار کریں گے وہاں بہت چلے گی تمہاری برفی گورے بہت پسند کریں گے...



خوشی نے ریسیپی لکھوائی اُنکو پکڑائی اور پھر بولا :

دودھ چینی کھویا

اور میرا نصیب

آپ سب کچھ لے سکتے ہیں لیکن خوشی جیسا نصیب کہاں سے لیں گے ...؟

تو میں نے اُس فرنیچر والے کو سمجھایا :

" میرے بھائی تصویر یا ڈیزائن لے جانے سے کوئی آپ کا نصیب ساتھ نہیں لے جائے گا ، ہر چیز کاپی ہو سکتی ہے لیکن آپ کا نصیب کاپی کرنے والا کیمرہ آج تک ایجاد نہیں ہوا ہے، آپ کا حصہ آپ ہی کا ہے اور یہ رزق پہاڑوں کی تہہ میں ہو تو بھی مل کر رہے گا ... "

Thursday, 4 March 2021

Storie

March 04, 2021 0
Storie

 

ہپ ہپ ہرا


ہپ ہپ ہرا

 

اس کا اصل نام رفیق تھا اصل نام کوٸ بھی نہیں پکارتا ۔ نام کی ٹانگیں بازو توڑ کے لیا جاتا ہے ۔ اسے بھی فیقا بلایا جانے لگا ۔ فیقا جس غیر ملکی کمپنی میں کام کرتا تھا وہاں کی سپر واٸز مسز جیسیکا اسے پھیکا کہہ کر بلاتی تھی کیوں کہ وہ فیقا کا تلفظ صیحح طرح سے ادا نہیں کر سکتی تھی ۔ یوں وہ رفیق سے فیقا اور پھر پھیکا مشہور ہوگیا

ایک دن پھیکا سمندر کنارے بیٹھا تھا کہ ایک بڑی سی بوتل سمندر کی لہروں پہ تیرتی ہوٸ اس کے سامنے سے گزری ۔ پھیکا اٹھا اور بوتل اٹھا لایا ۔ بوتل پہ ایک بڑا سا لکڑی کا کارک لگا ہوا تھا ۔ پھیکے نے زور لگا کر کارک کھینچا ۔ پھر اس نے بوتل میں جھانکا ۔ بوتل کی تہہ میں ہلکا سا دھواں لہرا رہا تھا ۔ بوتل کے جن کی کہانیاں پھیکے نے بہت بار سنی تھی ۔ اس نے بوتل کو الٹا کر کے جھٹکا ۔ بوتل کے اندر سے یکلخت ایک چیختی باریک سی آواز آٸ

" او کمبخت انسان! آرام سے نہیں کہہ سکتے باہر آنے کا ۔۔ "

پھیکے نے گھبرا کر بوتل پھینک دی ۔ پھر وہی چیختی آواز سنائی دی

" او تیرا بیڑہ غرق ۔ میری جان لینی ہے کیا ۔ آرام سے نہیں رکھ سکتے بوتل زمین پر ۔۔ "

پھیکا حیران و پریشان کھڑا تھا ۔ پھر اس نے جھک کر بوتل کے قریب جا کے کہا

" جن بھاٸ! باہر تشریف لاٶ ۔ مجھے تمہارے درشن کرنے ہیں ۔۔ "

جن کی آواز آٸ

" میں بڑے عرصے سے بوتل میں ہوں ۔ اب تو سست ہوگیا ہوں جی نہیں کرتا باہر نکلنے کو ۔ اور میں اتنی مشکل زبان نہیں سمجھ سکتا ۔۔ "

پھیکے نے کہا

" میرا مطبل ہے باہر آٶ مجھے بات کرنی ہے ۔۔ "

جن نے کہا

" ہم ایسے بھی بات کررہے ہیں ۔ تو میں کیوں خواہ مخواہ باہر آٶں ۔ کیا بات کرنی ہے تمہیں ۔۔ ؟ "

پھیکے نے ہچکچاتے ہوۓ کہا

" میں نے سنا ہے تم تین خواہشیں پوری کرتے ہو ۔ میری بھی خواہشیں پوری کردو ۔۔ "

جن کی آواز لہراٸ

" تین نہیں ۔ میں اب صرف ایک پوری کر سکتا ہوں کیوں کہ بہت بوڑھا ہوچکا ہوں ۔۔ "

پھیکے نے خوش ہوکر کہا

" اچھا مجھے ڈھیر ساری دولت چاہیے ۔۔ "

جن نے پوچھا

" تمہارے بینک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں ۔۔ ؟ "

پھیکے نے چونک کر کہا

'' کچھ بھی نہیں ۔ میرا اکاؤنٹ ہی نہیں ہے ۔ کیوں ۔۔ ؟ "

جن نے غصہ ہوکر کہا

" تمہارا دماغ خراب ہے کیا ۔ اکاؤنٹ نہیں ہے تو میں کہاں سے لے کر آٶں دولت ۔۔ ؟ "

پھیکے نے بڑا پھیکا پھیکا سا مشورہ دیا

" کسی دولت مند کی چرا لاٶ ۔ تم تو جن ہو یہ کر سکتے ہو ۔۔ "

جن نے گہری سنجيدگی سے پوچھا

" مرزا تمیزالدین قازقستانی کو جانتے ہو ۔۔ ؟ "

پھیکے نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا

" میں لاعلم ہوں ۔ نام سے تو کچھ بڑی ہستی لگتے ۔ کوٸ پیر صاحب ہیں ۔۔ ؟ "

جن نے ناگواری سے کہا

" ایک نمبر کا گھامڑ انسان ہے ۔ پچھلی بار میں اسی کے ہاتھ لگا تھا ۔ اس نے بھی یہی کہا کہ کسی امیر بندے کی دولت چرا لاٶ ۔ میں چرا لایا بعد میں اس امیر بندے نے مجھے جیل میں ڈلوادیا ۔ تم نے پاکستان کا نام سنا ہے ۔ وہاں کی پولیس بڑی سخت ہے قسمے ۔ وہ وہ باتیں بھی اعتراف کروا لیتی ہے جن کے بارے سن بھی پہلی بار رہے ہوں ۔۔ "

پھیکے نے ایک ذرا مایوسی سے کہا

" اس کا مطبل تم دولت نہیں دے سکتے ۔ اچھا پھر مجھے خوبصورت بنادو ۔۔ "

جن نے کہا

" تم نے میری صورت دیکھی ہے ۔ نہیں دیکھی ہوگی ۔ ورنہ راتوں کو چیخیں ںکل جاتیں ۔ پاکستان میں میری بھی ایک بار میری بھی چیخیں نکل گٸیں تھیں جب ایک خاتون منہ دھو کر سامنے آٸیں تھیں ۔ بازار سے ہزار اقسام کی کریمز دستیاب ہیں ان سے مدد لو ۔۔ "

پھیکے نے کہا

" پھر تم کر کیا سکتے ہو ۔ کیا تم مسز جیسیکا کو گونگا بنا سکتے ہو ۔ بڑی بولتی ہیں سانس خشک کردیتی ہیں ۔۔ "

جن نے کہا

" میرا خیال ہے میں یہ کر سکتا ہوں ۔۔ "

پھیکا خوشی سے اچھل پڑا ۔ اس نے جلدی سے کہا

" اور وہ اکرم جہاز کو بھی گونگا کردو ۔ کمبخت کی آواز کانوں میں چھبتی ہے ۔ اور دھیمے سیٹھ کو بھی کردو ۔ آٸندہ ادھار نہیں مانگے گا ۔۔ "

جن نے کہا

" تم جاٶ اور تماشا دیکھو ۔۔ "

پھیکے نے بوتل پہ کارک لگایا اور اسے گھما کر واپس سمندر میں پھینک دیا ۔ پھر وہ دوڑتا ہوا مسز جیسیکا کے دفتر پہنچا ۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے کہا

" کیسی ہو مسز جیسیکا ۔ سنا ہے تم بول نہیں سکتیں ۔۔ "

مسز جیسیکا ایک فاٸل پڑھ رہی تھی ۔ اس نے ناگواری سے سر اٹھایا اور کچھ کہا لیکن آواز نہیں آٸ ۔ پھیکے نے خوشی سے چیختے ہوۓ کہا

" ہپ ہپ ہرا ۔ بوتل کا جن زندہ باد ۔۔ "

وہ پلٹا اور اکرم جہاز کے پاس گیا ۔ اکرم اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کھانا کھارہا تھا ۔ پھیکے نے پوچھا

" جہاز! کیا حال ہے ۔۔ ؟ "

جہازی نے بھی کچھ کہا لیکن آواز نہیں ابھری ۔ پھیکے نے قہقہہ لگایا ۔ جہاز اور اس کے ساتھی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ساتھی نے بھی کچھ کہا لیکن یا حیرت!

اس کی بھی آواز نہیں تھی ۔ اس بار پھیکے نے حیرت سے انہیں دیکھا کیوں کہ اس نے اس ساتھی کو گونگا بنانے کو نہیں کہا تھا ۔ اس نے اکرم جہاز کے ساتھی سے کہا

" تم کیوں نہیں بول سکتے ۔۔ ؟ "

ساتھی نے ایک کاغذ پہ کچھ لکھا اور اسے سامنے کیا ۔ لکھا تھا

" کیا بکواس کررہے ہو ۔ ہم دونوں ہی بول رہے ہیں ۔ تمہیں سنائی نہیں دے رہا ۔ لگتا ہے بہرے ہوگۓ ہو ۔۔ "

مرزا_نامہ

Saturday, 20 July 2019

Long Urdu Stories

July 20, 2019 0
Long Urdu Stories



ایک کسان اپنے مالک کے کھیت میں کام کرتے کرتے سوچنے لگا ۔۔۔ کاش کہ میں مالدار ہوتا تو میں زمین خرید لیتا جس میں میں کھیتی کرتا۔۔میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، لذیذ کھانے کھانا چاہتا ہوں اور آرام دہ گھر میں رہنا چاہتا ہوں, اچانک کسی کی آواز سن کر وہ چونک پڑا جو اعلان کر رہا تھا کہ:" بادشاہ سلامت ان کھیتوں کے پاس والے راستے سے آئندہ ہفتے گزریں گے، اور سبھی کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے استقبال اور ان کو سلام کرنے کے لئے صف بستہ ہوکر کھڑے رہیں"۔

کسان نے اپنے دل میں سوچا۔۔۔"یہی موقع ہے۔۔اگر میں نے بادشاہ سے کچھ سونے کے سکے مانگ لئے تو کیا ہوا، اس سے میرے سبھی خواب تو پورے ہو جائیں گے۔۔۔اور وہ کبھی بھی میری درخواست کو رد نہیں کریں گے اس لئے کہ جیسا کہ میں نے سنا ہے وہ اچھے اور بھلے انسان ہیں"

اسی طرح کسان ہفتہ بھرخواب بنتا رہا۔۔۔آخر کار وہ دن بھی آ پہونچا۔ تمام کسان بادشاہ کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف صف بستہ کھڑے تھے۔۔۔ اچانک دور گاڑیاں دکھائی دیں جنھیں گھوڑے کھینچ رہے تھے، کسان شاہی گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور چلانے لگا:"اے بادشاہ۔۔ اے بادشاہ۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے"۔ بادشاہ نے گاڑی کو روکنے کا حکم دیا اور کسان سے پوچھا:"تم کیا چاہتے ہو؟" کسان بہت پریشان ہو گیا اور اس نے کہا :"میں کچھ سونے کے سکے چاہتا ہوں تاکہ میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید سکوں"۔ بادشاہ مسکرایا اور اس نے کسان سے کہا:" میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے اپنے پاس سے کوئی چیزدو"


کسان اور بھی پریشان ہو گیا اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ :" اس بادشاہ کی بخیلی کی بھی حد ہو گئی۔۔ میں اس کے پاس آیا تھا کہ مجھے کچھ دے اور اب وہ خود مجھ ہی سے مانگ رہا ہے"۔۔ کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے چاولوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی سے جو اس کے ہاتھ میں تھی چاول کا ایک دانہ نکالا اور اسے بادشاہ کو دیدیا، بادشاہ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور قافلے کو دوبارہ چلنے کا حکم دیا۔۔ نامراد ہوکر کسان کبیدہ خاطر اپنے گھر واپس لوٹ آیا، اور اپنی بیوی کو چاولوں کی تھیلی دی کہ اسے پکا دے۔۔اچانک اس کی بیوی چلائی کہ:" مجھے چاولوں کے بیچ اصلی سونے کا چاول کا ایک دانہ ملا ہے" اب کسان انتہائی تکلیف سے چیخ پڑا: "کاش کہ میں نے بادشاہ کو سارے چاول دے دئیے ہوتے"


یہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے، یہاں ہم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے، آخرت میں جب اس کا اجر و ثواب دیکھیں گے تو خواہش کریں گے کہ کاش ہم نے سارا مال ہی راہ خدا میں لٹا دیا ہوتا۔


ارشادِ بارى تعالٰى ہے


"بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے الله کو اچھا قرض دیا ان کے لیے دگنا کیا جائے گا اور انہیں عمدہ بدلہ ملے گا." (سورة الحديد-18

Long Urdu Stories

July 20, 2019 0
Long Urdu Stories


کسی یونیورسٹی کا ایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا۔ پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے۔ چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے کسی غریب کسان کی لگتی تھی۔

طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا: "سر! کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے"۔

پروفیسر نے جواب دیا: "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے، تم ایک امیر لڑکے ہو اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو۔"
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے"۔ لڑکے نے ایسا ہی کیا اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے۔
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے۔ کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی۔ وہ دیکھنے کی خاطر جھکا تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا۔
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا، اسے الٹ پلٹ کیا اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور اسے ایک جھٹکا سا لگا جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا اس کے ساتھ ہی فرطِ جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں۔ وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا، اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا، جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے، کوئی پرسان حال نہ تھا۔



طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تب اچانک پروفیسر بول پڑے اور لڑکے سے پوچھنے لگے: "کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے؟"

لڑکے نے جواب دیا: "سر! آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا"

Friday, 21 June 2019

Long Urdu Story

June 21, 2019 0
Long Urdu Story


بہت عرصہ پہلے ایک جگہ سیب کا ایک بہت بڑا درخت تھا ور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اُس درخت کے اِرد گِرد کھیلا کرتا تھا وہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑہتا اس کے سیب کھاتا اور تھک کر اس کے سایے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیا

اور پھر بچہ ہر روز درخت کے ارد گِرد نہیں کھیلتا تھا ایک دن بچہ واپس آ گیا لیکن وہ دُکھی تھا، درخت نے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو، بچے نے جواب دیا میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے اِرد گِرد کھیلوں مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے چاہیں، درخت نے کہا """ میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں """ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ تُم میرے سارے کے سارے سیب لے لو اور انہیں بیچ دو تاکہ تُمہیں پیسے مل جائیں

بچہ بہت ہی خوش ہو گیا بچہ درخت پر چڑھا اور سارے سیب توڑ لیے اورخوشی خوشی وہاں سے چلا گیادرخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے لیکن اُس کی خُوشی سے بہت ہی کم تھا وہ خُوشی جو اُسے بچے کی خُوشی دیکھ کر ہوئیلیکن درخت کی خوشی کچھ زیادہ دیر تک نہ رہ سکی کیونکہ ، بچہ سیب لے جانے کے بعد واپس نہیں آیالہذا درخت دُکھی ہو گیا

پھر ایک دن اچانک وہ بچہ واپس آ گیا لیکن اب وہ ایک مرد بن چکا تھا درخت اُس کے آنے پر بہت ہی زیادہ خوش ہوا اور اس سے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو، بچے نے جواب دیا میرے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں کیونکہ مجھے اپنے بیوی بچوں کے لیے کام کرنا ہے میں ایک گھر چاہیے جو ہمیں تحفظ دے سکےکیا تُم میری مدد کر سکتے ہو؟ مجھے افسوس ہےمیرے پاس تو کوئی گھر نہیں لیکن تُم اپنا گھر بنانے کے لیے میری ٹہنیاں اور شاخیں کاٹ سکتے ہو

اُس آدمی نے درخت کی ساری ہی ٹہنیاں اور شاخیں لے لیں اورپھر خوشی خوشی سے چلا گیا جس طرح وہ پہلے اس کے پھل لے کر چلا گیا تھا درخت اس کو خوش دیکھ کر پھر سے بہت خُوش ہوا اور وہ ایک دفعہ پھر غائب ہو گیا اور درخت کے پاس واپس نہ آیا درخت ایک دفعہ پھر اکیلا ہو گیا ، دُکھی ہو گیا، پھر ایک لمبے عرصے کے بعد ، گرمیوں کے ایک گرم دِن میںوہ آدمی واپس آیا اوردرخت ایک دفعہ پھر خُوشی کی انتہاء کو چُھونے لگا اب ہی شاید یہ میرے ساتھ کھیلے، آؤ میرے ساتھ کھیلو درخت نے کہا، 

آدمی نے درخت سے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی دریا میں کشتی رانی کرتے ہوئے کسی پرسکون جگہ میں جا پہنچوں آدمی نے درخت سے کہا کیا تُم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟ درخت نے کہا تُم میرا تنا لے کر اس کی کشتی بنا لو اس طرح تُم اس کے ذریعے دور تک جا سکتے ہو اور خوش ہو سکتے ہو، تو اُس آدمی نے درخت کا تنا کاٹ لیا اور اس کی کشتی بنا لی اور پھر آدمی کشتی میں سوار ہو کر چلا گیا اور ایک لمبی مدت تک واپس نہ آیا آخر کار دیر تک غائب رہنے کے بعد وہ آدمی واپس آیا اُسے دیکھ کر درخت نے دُکھ سے کہا

مجھے افسوس ہے میرے بیٹے کہ اب میرے پاس تُمہیں دینے کے لیے اور کچھ نہیں اور کہا تُمارے لیے اب اور سیب بھی نہیں ہیں، آدمی نے کہا کوئی بات نہیں اب میرے دانت بھی نہیں جن سے میں سیب کو کاٹ سکتا، تُمارے کودنے پھاندنے کے لیے اب میرا تنا بھی نہیں، تو آدمی نے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ایسا کام نہیں کر سکتا، 

درخت نے کہا، میرے بیٹے اب میرے پاس واقعتا کچھ بھی نہیں جو میں تمہیں دے سکوں اب صرف میری مرتی ہوئی جڑیں ہی بچی ہیں درخت نے روتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آواز میں کہا، آدمی نے کہا، اب مجھے صرف کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں سُکون سے آرام کر سکوں، بہت اچھی بات ہے بوڑھے درخت کی بوڑہی جڑیں تُمارے آرام کرنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہیں، درخت نے کہا، آؤ میرے ساتھ بیٹھو تا کہ تُم سُکون پاؤ ،،،آ جاؤ،،،آدمی درخت کے پاس آ بیٹھا درخت پھر سے خُوش ہو گیا مسکرایا اور اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تِھیں،

کیا آپ جانتے ہیں یہ درخت کون ہے ؟؟؟ یہ درخت آپ کے والدین ہیں،،، اپنے والدین کی قربانیوں کی قدر کیجئے ، آپ ان کا حق تو کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے مگر انکی خوب خدمت اور فرمانبرداری کیجئے تا کہ آپ کی دنیا اور آخرت سنور جائے ان شاء الله ! اللہ سوہنا ہم سب کو سمجھ کر عمل کی توفیق دے، آمین