جہیز ایک ناسور لعنت
نوجوانوں خیال رکھنا کے کوئی اور بہن عائشہ کی طرح اپ کی وجہ
سے خود کشی کا حرام راستہ نہ اختیار کرے
شریک زندگی کا انتخاب
–
خلوص نیت کے ساته عظیم مقصد کو سامنے رکھ کر تعلیماتِ نبوی
کے مطابق شریکِ زندگی کی تلاش ہو گی تو بے شمار معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا
نہیں کرنا پڑے گا.
مرد صرف اپنی بیوی کے لئے قوام نہیں ہے.وہ اپنے گهر کی سب
خواتین کی سوچ کو درست سمت رکهنے کا ذمہ دار ہے.
مائیں اور بہنیں جب اپنے بیٹے،بهائ کے لئے چاند سی دلہن کا
خواب دیکهنے لگتی ییں اور سر سے پاؤں تک خوبصورتی کا خاص پیمانہ لے کر لڑکیوں کو
جانچنے پرکهنے نکلتی ہیں
تو اسی وقت بیٹے کو واضح کر دینا ہوگا کہ وہ اپنی شریک حیات
کے بارے میں کیا تصور رکهتا ہے. اس کی کیا ترجیحات ہیں؟.
اپنے ِ نفس امارہ کی ترویج کرنی ہے یا اسوہ رسولﷺ پہ چلتے
ہوئے "نفس مطمئنہ” بننے کا راستہ اختیار کرنا ہے
.
رشتے تلاش کرنے کی آڑ میں لڑکیوں اور ان کے والدین کی عزت
نفس کو ٹهیس پہنچانا گناہ کا کام ہے.
اس کلچر کو فروغ دینے کی بجائے ختم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.
جہیز اور بارات والا کلچر بهی سراسر غیر اسلامی ہے. نکاح اور شادی کی تقریب میں
غیر ضروری غیر اسلامی رسموں کی وجہ سے اخراجات وبال جان بن کر رہ گئے ہیں اور ہم
سب اجتماعی طور پہ برکت و رحمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں..
شادی کی رسمیں شیطانی عمل ہیں اور اسراف کی راہ شیطانی عمل
ہے.ایسا کرنے والا شیطان کا بهائ ہے.بے تحاشا مہمانوں اونچے درجے کے سرکاری و غیر
سرکاری لوگوں کو بلانا فخر و غرور میں مبتلا ہونا نکاح کے مقصد کو فوت کرنا ہے .
ولیمہ کی دعوت مسنون ہے وہ بهی اپنی استطاعت کے مطابق ہونی
چاہئے.
الله تعالى کے آخری نبی سید الانبیاء حضورﷺ کی حیاتِ طیبہ
میں اور ان کی شہر میں موجودگی کے باوجود لوگ ان کو بلائے بغیر نکاح کر لیتے تهے.
نہ امام الانبیاء ناراض ہوتے اور نہ ہی نکاح کرنے والا شرمندہ ہوتا. نہ کسی کی
معاشرے میں ناک کٹتی تهی.
نکاح کا دن ایک ایسا دن ہے جس کو عام دنوں سے زیادہ اتنی سی
اہمیت کافی ہے جیسے کہ جمعہ کا دن اور عیدین کا دن عام دنوں سے افضل ہے. جس قوم نے
اپنی عزت و آبرو کو بحال کرنا ہو اسے تو دن میں ایک کهانے پہ اکتفا کر لینے پہ
اتفاق کر لینا چاہئے کجا کہ محض نام و نمود کی خاطر رزق اور دولت کا ضائع کرنا
قومی شعار بن جائے ..
شریک برادری میں ناک اونچی رکهنے کے چکر میں جو کچھ ہوتا ہے
اس کے بعد نہ جانے کہاں کہاں ناک رگڑنی پڑتی ہے. اس کلچر کو ختم کرنے کے لئے پہل
کرنے کا حوصلہ کون کرے؟
سب نے کهائے ہوئے کهانے کا بدلہ چکانا ہے، دئے ہوئے تحفوں کی
واپس وصولی کرنی ہے..اور سب ملامت سے ڈرتے ہیں
"ولا
لومة لائم "کی ربانی پکار رب کی طرف بلانے والے بهی بهول جاتے ہیں. اور یہ بهی حقیقت نظروں سے اوجهل ہو جاتی
ہے کہ شریکے راضی پهر بهی نہ ہوں گے. اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرمان
کو شیطان نسیا منسیا کر دیتا ہے
نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا سب سے با برکت
شادی وہ ہے جس میں خرچہ کم سے کم ہو. ”
اگر معاشرے میں امن و سکون اور برکت کی بہار لانی ہے تو اس
کے لئے بنیاد سے إصلاح کرنی ہو گی. .اور بنیادی اکائ میاں بیوی کا رشتہ ہے . عملی
زندگی کی ابتدا کرنے والے نئے جوڑے اپنے مقاصد متعین کریں، اور اپنی اصلاح کا مصمم
ارادہ اور اپنے سے بڑے رشتوں کی إصلاح میں اپنا کردار ادا کریں اب جدید ٹیکنالوجی
کی وسعت پزیری نے سیکهنے سکهانے کا وہ ماحول بنا دیا کہ اصلاح معاشرہ کے لئے
جوانوں کو پیروں کا استاد ہونا پڑے گا.
کسی بهی قوم کی نوجوان نسل جب اپنی إصلاح آپ کا پرچم اٹها
لیتی ہے تو ہی انقلاب آتے ہیں.
ہمارے سامنے اسوہ رسول اکرم موجود ہے.جن کی زندگی جہالت،
فرسودہ رسم و رواج ،انا کے بت پاش پاش کرنے میں گزری . اس معاشرے کےجن جوانوں نے
جب حق کو حق تسلیم کر لیا اور اپنی جہالت کو چهوڑنے کا ارادہ کر لیا تو پهر اس پہ
جم گئے
.
پهر آباؤ اجداد کے سارے فلسفے بهول گئے. کالے اور گورے کے
امتیاز ختم ہوگئے. انا و فخر و غرور کے فلک بوس پہاڑ ریت بن کر ہوا میں اڑ گئے.
خالص الله کے لئے جینے اور مرنے والوں نے اپنے عزیز از جان رشتوں کو مشروط کر لیا
،الله کے ساتهی بن گئے اور الله سبحانه وتعالى کے ساتهی بننے والوں کو اپنا بنا
لیا ورنہ رشتوں کی بنیاد نئ رکه لی تاکہ اسلامی معاشرے کے درخت کی جڑیں کھوکھلی نہ
ہوں وہ درخت ہی ثمر دار ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں.
آج کا دور پهر سے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو پکار رہا ہے،
دنیا میں امن صرف اسلام کے ذریعے آسکتا ہے اور اسلام کوئ ایسا ضابطہ نہیں جو کسی
خاص وقت یا حالات کے لئے ہی مخصوص ہو
یہ نغمہ فصل گل لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
نوجوانوں کو مخاطب کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ معاشرے
کے بزرگ بری الزمہ ہو گئے ہیں،
جوانوں کو اسوہ رسول پہ عمل کرنے کے لئے راہ ہموار کرنا، ان
کی حوصلہ افزائی کرنا، بزرگی کا اپنی عمر اور مرتبے کا ناجائز رعب اور دهونس نہ
ڈالنا،اور آباؤ اجداد کے غیر اسلامی رسم ورواج، مروجہ اصولوں کو چهوڑنے پہ سمجهوتہ
کرلینا، ان کی ہی ذمہ داری ہے.
آئیے ہم سب اپنےاپنے مقام پہ اپنی ذمہ داریوں کی پہچان کریں
اور مل جل کر ایک ایسے شجر معاشرت کی آبیاری کریں جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور وہ
سایہ دار ہونے کے ساته ثمر دار اور لازوال بهی ہو..
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هدیتنا وهب لنا من لدنک رحمہ.انک
انت الوهاب آمین.....
No comments:
Post a Comment