کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا، کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مِٹ گئے پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نِشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو، تم اک گورکھ دھندا ہو
ہر ذرّے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تو کیا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
تجھے دیر و ہرم میں میں نے ڈھونڈا، تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے
ڈھونڈے نہیں ملے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشہ ہے جہاں ہم ہیں وہیں تم
تم اک گورکھ دھندا ہو
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندا ہو
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُرفن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغ اِک رُخِ روشن تیرا
تم اک گورکھ دھندا ہو
جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اُسی کھوئے ہوئے کو کچھ مِلا ہے
نہ بُت خانے، نہ کعبے میں مِلاہے
مگر ٹوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر اِنکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتا ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
حیران ہوں اِس بات پہ تم کون ہو کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
عقل میں جو گھِر گیا لا اِنتہا کیوںکر ہوا
جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوںکر ہوا
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
پتا یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دِل میں
تم اک گورکھ دھندا ہو
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تُم
جلوہ دِکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تُم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تُم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تُم
حیراں ہوں میرے دِل میں سمائے ہو کِس طرح
ہالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تُم
یہ معبد و حرم یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تُم
تم اک گورکھ دھندا ہو
دِل پہ حیرت نے عجب رںگ جما رکھا ہے
ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکّر کیا ہے
کھیل کیا تُم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے میں بنا کر قیدی
اُس پہ پھر موت کا پہرا بھی بِٹھا رکھا ہے
دے کے تدبیر کے پنچھی کو اُڑانیں تُم نے
دامِ تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تُم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعوا بھی تمہیں
نحنُ اقرب کا بھی پیغام سُنا رکھا ہے
یہ بُرائی، وہ بھلائی، یہ جہنّم وہ بہشت
اِس اُلٹ پھیر میں فرماؤ کہ کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و اِنصاف کا میعار بھی کیا رکھا ہے
دے کے اِنسان کو دُنیا میں خلافت اپنی
اِک تماشا بھی زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
No comments:
Post a Comment